حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، اصغریہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے مرکزی صدر عاطف مہدی سیال نے خانہ فرہنگ ایران حیدرآباد سندھ کی جانب سے شہید سردار قاسم سلیمانی، شہید ابو مہدی المہندس اور شہداء کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے"عالمی دہشتگردوں کے خلاف مزاحمتی علمبرداروں کو خراج عقیدت" کے موضوع پر منعقدہ کانفرنس میں شرکت کی۔
شہید قاسم سلیمانی کی تیسری برسی کے موقع پر مرکزی صدر عاطف مہدی سیال کا کہنا تھا کہ شہادت ایک عظیم درجہ ہے جسے خدا اپنے قریبی ترین انسانوں کا عطا کرتا ہے، یقیناً جنرل قاسم سلیمانی اور ابو مہدی المہندس خدا کے قریب ترین انسان ہیں جنہوں نے اپنا مکمل وجود خدا کے حوالے کردیا۔
انہوں نے کہا: شہید قاسم سلیمانی کی شخصیت کا اندازہ اس سے لگائیں کہ شہادت نے خود ان کا انتخاب کیا ہے اور وہ شہید ہونے کے بعد اب بھی ہر انسان کے دل میں زندہ ہیں اور اس وقت وہ ایک مکتب بن چکے ہیں۔
شہید سردار ایک مجاہد اور باوفا انسان ہیں جنہوں نے اس دنیا میں رہ کر بھی نوجوانوں کو ہمت دی اور اب جب اس دنیا میں موجود نہیں تو ان کی وفاداری، ان کی شجاعت، ان کا شوقِ شہادت یعنی ان کی زندگی کا ہر واقعہ جوانوں کو ہمت دیتا ہے۔
سردار سلیمانی فوجی امور میں ایک خاص فوجی ذہانت کے مالک تھے، وہ مارشل آرٹس میں ماہر تھےکہ عملی طور پر محض نظریاتی انداز میں نہیں اس علم ،عمیق اورحساس مہارت کو حاصل کرنے کے لئے انسان کو میدان جنگ میں مستقل طور پر موجود رہنا پڑتا ہے اور آہستہ آہستہ اس کے مختلف زاویوں اور بہت ساری پیچیدگیوں سے واقف ہونا پڑتا ہے، انہوں نے کم از کم تین بڑے جنگی میدانوں کا تجربہ کیا تھا: دفاع مقدس کا میدان، مسلح شرپسندوں کے خلاف جنگ کا میدان اور آخر کار عراق اور شام میں سرحد پار اور انٹر ریجنل جنگ کا میدان۔ جہاں سامراجی طاقتوں اور ان کے خونخوار چیلوں کی طرف سے حاصل کردہ تمام تر حمایت کے ساتھ ابھرنے والی بدنام زمانہ تنظیم داعش کے ساتھ مقابلہ نیز ہر اس جگہ پر جہاں ان کی موجودگی ضروری تھی۔
وہ کیمپوں میں رہتے ہوئے آپریشن کے مختلف مراحل کی رہنمائی کرنے کے علاوہ بہادری کے ساتھ اور بے خوف ہوکر محاذ کی فرنٹ لائنوں پر موجود ہوتے تھے، وہ میدان جنگ میں دشمن کا مقابلہ کرنے میں کسی بھی قسم کا خوف نہیں کھاتے تھے۔
انہوں نے اپنے تمام وجود کے ساتھ امیرالمؤمنین امام علی علیہ السلام کے ان الفاظ پر عمل کیا جن میں آپ نے ارشاد فرمایا ہے کہ: تَزُولُ الْجِبَالُ وَ لَا تَزُلْ عَضَّ عَلَى نَاجِذِكَ أَعِرِ اللَّهَ جُمْجُمَتَكَ تِدْ فِي الْأَرْضِ قَدَمَكَ ارْمِ بِبَصَرِكَ أَقْصَى الْقَوْمِ وَ غُضَّ بَصَرَكَ وَ اعْلَمْ أَنَّ النَّصْرَ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ سُبْحَانَهُ۔ خبردار! پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹ جائے۔ تم نہ ہٹنا، اپنے دانتوں کو بھینچ لینا۔ اپنا کاسہ سر اللہ کے حوالے کردینا۔زمین میں قدم گاڑ دینا ۔نگاہ آخر قوم پر رکھنا(دشمن کی تعداد اور سازوسامان سے مت ڈرنا)۔آنکھوں کو بند رکھنا اور یہ یاد رکھنا کہ مدد اللہ ہی کی طرف سے آنے والی ہے۔
یقیناً سردار سلیمانی ایسے ہی تھے، وہ میدان جنگ کے وسط میں پہنچ جاتے تھے اور بہادری سے لڑتے تھے، اس طرح کی موجودگی کا بہت موثر نتیجہ نکلتا تھا اور اس کی وجہ سےمجاہدین کا جذبہ ، قوت اور نقل و حرکت دوگنا ہوجاتی تھی،ان کی بے مثال کمانڈ اور بہادری کی وجہ سے وہ کئی فتوحات کے بعد پہلی بار مسلح افواج کے سپریم کمانڈ کے ہاتھوں ملک کا سب سے بڑا فوجی اعزاز ذوالفقار حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔
سردار شہادت کے عاشق تھے، وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ جدائی کی تپش میں جل رہے تھے اور اپنی رات کی اپنی مناجاتوں میں حضرت حق سے شہادت کی دعائیں مانگتے تھے، ان کے جسم کا ذرہ ذرہ شہادت کا طلبگار تھا، وہ شہداء سے باتیں کرتے تھے اور ان سے التجا کرتے تھے کہ وہ انھیں بھی اپنے پاس بلا لیں اور اپنی روحانی بزم میں مدعو کریں، ان کی سب سے بڑی آرزو جس میں کبھی بھی کمزوری اور کمی دیکھنے کو نہیں ملی، شہادت تھی اور آخر کار اس دور کے سب سے شقی انسان کے ہاتھوں شہید ہوکر وہ اپنی اس آرزو تک بھی پہنچ گئے۔
وہ ظاہری طور پر اس دنیا میں موجود نہیں پر سردار ہر انقلابی کی دل میں بستا ہے اور آج بھی دشمن سردار کے نام سے ڈرتا ہے۔
آپ کا تبصرہ